برادرانِ اسلام ! ہم سب جانتے ہیں کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی مقدس کتاب اور انکا عظیم الشان کلام ہے۔ کلام کی عظمت متکلم کی عظمت کے مطابق ہوتی ہے، جس طرح اللہ تعالی سب سے اعلیٰ ، ارفع اور اکبر ہے اسی طرح ان کا کلام اور ان کی کتاب بھی دنیا کی تمام کتابوں سے زیادہ عظمت و احترام کی مستحق ہے۔ اسی وجہ سے علماء امت نے کلام اللہ شریف کے بہت سے حقوق بتلائے ہیں اور ان کی خلاف ورزی کے انجام بد سے ڈرایا ہے ۔ امام بیہقیؒ نے ”شعب الایمان“ میں قرآن مجید کے پچاس حقوق بیان کئے ہیں، اور یہ بھی لکھا ہے کہ میں ان کے علاوہ اور بھی حقوق ہونے کا انکار نہیں کرتا جو سرسری طور پر ذہن میں آیا وہ لکھدیا ، پھر اس کے بعد ہر حق کے سلسلہ میں اپنی سند سے احادیث رسول ﷺ اور آثار صحابہ نقل فرمائے ہیں، اسی سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کتنی عظیم کتاب ہے اور اس کا کس قدر احترام ہم پر لازم ہے۔ انہیں حقوق میں ایک اہم حق اس کے ظاہر کا احترام ہے، یعنی کلام اللہ شریف جن اوراق پر لکھا جائے یا چھا پا جائے اُن اوراق کی تعظیم و تنظیف ، اسی طرح ہر اس چیز کا احترام جس کی کوئی نسبت اس کتاب مقدس کے ساتھ ہو لازم ہے ۔ مثلاً اس کے رکھنے کے لیے صاف ستھرے کپڑے، باکس یا جزدان کا ہونا ، اونچی اور قابلِ عزت جگہ پر رکھنا، گرد و غبار سے محفوظ رکھنا، بنا طہارت اسے نہ چھونا، بے شعور اور نادان بچوں کے ہاتھوں میں نہ دینا، تلاوت کرتے وقت خود پاک صاف ہونا اور جس جگہ تلاوت کیجائے اس کا بھی پاک صاف ہونا، اس کے پڑھنے سے قبل خوشبو کا استعمال کرنا، اس کے مستعمل اور بوسیدہ کاغذوں کو بھی باعزت اور محفوظ جگہوں پر رکھنا، ان کو ایسی جگہوں اور تحریروں میں نہ لکھنا جس کی حفاظت نہ ہونے یا ضائع ہو جانے کا قوی امکان ہو وغیرہ۔
چنانچه قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے قرآن مجید محفوظ کتاب میں ہے اسے پاک لوگوں کے علاوہ کوئی نہیں چھوتا جب قرآن مجید آسمانوں کے اوپر بھی محفوظ کتاب میں رکھا گیا ہے اور پاک لوگوں یعنی فرشتوں کے علاوہ کوئی چھو بھی نہیں سکتا جب کہ وہاں رہتے ہی سب فرشتے ہیں ، تو پھر اس دنیا میں بھی اس کو پاکیزہ مقام پر رکھنے اور پاکیزہ طریقے پر استعمال کرنے کی بدرجہ اولی ضرورت ہے، اس لیے کہ یہاں کے حالات اور یہاں کے افراد پاک بھی ہوتے ہیں اور نا پاک بھی۔ یہ آیت شریفہ بتلا رہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے کلام کی حفاظت اور استعمال کرنے والوں کی طہارت کا اس قدر اہتمام فرمایا ہے تو بندوں کو بھی اپنے رب کے کلام کی عظمت واحترام کا بہت اہتمام کرنا چاہئے ۔
نبی کریم صلی السلام نے فرمایا ” دشمنوں کے علاقہ میں قرآن لے کر مت جاؤ ، کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن کے ہاتھ لگ جائے یعنی کہیں وہ اس کی بے ادبی نہ کر بیٹھیں اور تم اس کا سبب بن جاؤ۔ سوچنا چاہئے کہ جب بے ایمانوں کی تو ہین سے کلام اللہ شریف کو محفوظ رکھنے کا حکم دیا جا رہا ہے تو خود مسلمانوں کو اس کے احترام کرنے اور ہر طرح کی توہین و استخفاف سے بچنے کی کس قدر تاکید ہوگی ، اور اس کی خلاف ورزی کتنا بڑا جرم ہوگا ؟
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص نے پیشاب کرتے وقت سلام کیا، آپ نے جواب نہیں دیا۔ بعد میں اس شخص سے فرمایا ایسی حالت میں سلام مت کیا کرو، اور اگر تم کرو گے تو میں جواب نہیں دوں گا ، غور کرنا چاہئے کہ سلام میں اللہ تعالیٰ کا اسم مبارک ہونے کی وجہ سے اس کا اس قدر احترام کر کے دکھلایا گیا ہے تو قرآن مجید جو مکمل کلام الہی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اس کی عزت و توقیر کس قدر ضروری چیز ہوگی ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تہجد کا ارادہ فرماتے تو مسواک رگڑ کر دانت صاف فرماتے تھے۔
امام بیہقی " فرماتے ہیں کہ آپ کا یہ عمل نماز اور تلاوت قرآن کے احترام ہی میں تھا۔ حضرت علی نے ایک کا تب قرآن سے فرمایا ”جلی اور واضح خط میں لکھو، اس کی تحریر روشن رکھو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو روشن کتاب بنایا ہے “ یعنی اس کی معنوی و حقیقی مرتبے کا تقاضہ ہے کہ ظاہری اعتبار سے بھی اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہونا چاہئے۔ بشر بن حارث ایک بزرگ گزرے ہیں ، وہ پہلے بد قماش آدمی تھے، ان کی ہدایت کا سبب قرآن کریم کے احترام ہی ایک واقعہ بنا۔ انہیں ایک مرتبہ کاغذ کا ایک پرزہ زمین پر پڑا ہوا ملا جس پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا ہوا تھا، انہیں کلام اللہ کی یہ تو بین بہت گراں گذری ، انہوں نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر حیرت سے کہا: میرے آقا ! آپ اتنے بلند ہیں اور آپ کا نام نامی یہاں زمین پر پڑا ہوا ہے؟ پھر اس پرزے کو اٹھا کر صاف کیا ، عطار کے پاس جا کر سب سے قیمتی عطر خریدا، اس پرزے کو اس عطر میں بسایا اور اپنے گھر کی دیوار کے دراڑ میں اونچی جگہ محفوظ کر دیا۔ کلام اللہ کے اس احترام کی برکت سے ان کے دل کی دنیا بدل دی گئی ، وہاں سے سیدھے اس وقت کے ایک اللہ والے بزرگ کی مجلس میں پہونچے ، ان بزرگ نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا تم نے ان دنوں کیا خاص عمل کیا ہے مجھے بتلاؤ ؟ پھر انہوں نے اپنا خواب سنایا کہ رات میں نے خواب دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے ”بشر سے کہہ دو کہ اس نے ہمارے نام کا احترام کیا ہے ہم اس کو ذلیل ہونے نہیں دینگے، نہ دنیا میں نہ آخرت میں حضرت تمیم داری جب تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو احترام قرآن میں نہایت قیمتی چادر اوڑھتے تھے۔
حضرت قتادہ فرماتے ہیں جب سے میں نے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا ہے لہسن نہیں کھایا۔
حضرت عطاء و ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ اگر تم قرآن پڑھ رہے ہو کسی کی ریح خارج ہوگئی یاکہیں سے بد بو آنے لگے تو بد بو ختم ہونے تک تلاوت موقوف کر دو۔ جنبی اور حائضہ کو پاک ہونے تک قرآن مجید پڑھنے کی بھی اجازت نہیں حالانکہ اس کی وجہ سے منھ میں کوئی ظاہری گندگی اور بد بونہیں ہوتی ۔ مطلب یہ ہے کہ جب معنوی و حکمی ناپاکی کے ہوتے ہوئے یہ حکم ہے تو ظاہری گندگی کیسے برداشت ہو سکتی ہے؟ ( تمام روایات ” شعب الایمان جلد اول کی فصل آداب القرآن سے لی گئی ہیں )
یہ چند باتیں اس مختصر مضمون میں بطور نمونہ لکھی گئی ہیں، اگر سلف صالحین کے قرآن مجید کے ساتھ طرز عمل کے واقعات اور اس کی ظاہری و معنوی عظمتوں کی مثالیں نقل کی جائیں تو ایک مستقل مضمون ہو جائے گا، جو اس وقت مقصود نہیں ۔ ہمارے اسلاف کا حال تو یہ تھا کہ قرآن شریف تو بہت بڑی کتاب ہے دین کے علم کی نسبت سے ہر آلہ علم کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ اس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔
کیا یہ ظلم عظیم نہیں ؟
اس کے برخلاف آج کل بہت افسوس اور دُکھ کے ساتھ یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ ہم مسلمانوں میں قرآن کریم کا جیسا ادب ہونا چاہئے ویسا نہ رہا، دن بہ دن اس اہم مسئلہ کی طرف سے غفلت ہوتی جارہی ہے۔ جیسا ہونا چاہئے ویسا ادب تو ہم کیا کرتے ضروری اور واجبی احترام بھی ہم نہیں کر پارہے ہیں ، آج ہمارے گھروں میں اسی طرح اللہ تعالیٰ کے گھروں ( مسجدوں) میں بھی اکثر قرآن مجید کی صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کا اتنا خیال بھی نہیں رکھا جاتا جتنا (اللہ پاک معاف فرمائے) اپنے جوتوں چپلوں کی صفائی اور پالش کا خیال رکھا جاتا ہے، کم از کم دو چار دن میں ایک مرتبہ تو ضرور جوتے کی پالش کر لی جاتی ہے، فرش جھاڑا جاتا ہے، پونچھا لگایا جاتا ہے، گھر میں رکھے ہوئے پودے صاف کئے جاتے ہیں، دروازوں کھڑکیوں صوفوں کے کور بدلے جاتے ہیں ، شوکیسوں اور ان میں رکھی ہوئی اشیاء زینت کی صفائی کی جاتی ہے، گھر میں کونسی چیز ایسی ہے جس کو وقفہ وقفہ سے صاف نہیں کیا جاتا سوائے کلام اللہ شریف کے؟ کہ وہ جہاں رکھدی جاتی ہے مہینوں بلکہ بسا اوقات برسوں پڑی رہتی ہے، گردو غبار جم جاتی ہے، جلدیں سوکھ کر ٹوٹ جاتی ہیں ، مگر ہمیں اس کی طرف کوئی دھیان اور توجہ بھی نہیں ہوتی ۔ یہی حال ہماری اکثر مساجد کا ہے جن میں آج کل مصلیوں کے لیے ہر سہولت فراہم ہے، مسجدیں ایک سے ایک شاندار بن رہی ہیں لیکن اکثر مساجد میں قرآن مجید کی خدمت کا انتظام نہیں ہے، طہارت خانوں سے لے کر جماعت خانے تک، جوتوں کے اسٹانڈ سے لے کر نماز کی صفوں تک شاندار اور صاف ستھرا انتظام ہو رہا ہے، ان کی صفائی اور جھاڑو جھٹکے کے لیے افراد مقرر ہیں، بجلی، پانی ، فنائیل، آئیسڈ اور اگر بتیوں کے اخراجات منظور ہو رہے ہیں مخملی قالین بچھ رہی ہیں، قیمتی پائیدان ہیں، بیماروں کے لیے کرسیاں ہیں۔ یہ سب ہم بندوں کی راحت اور سہولت کے لیے ہے لیکن اللہ کے کلام کے لیے کوئی خاص انتظام نہیں ، ان کے سیلفوں میں گرد جمی رہتی ہے، پاروں کے سیٹ رکھے رکھے خراب ہوتے رہتے ہیں، پرانے کلام پاک کھلے رکھے رہتے ہیں ، ان کے صفحات ٹوٹ ٹوٹ کر ادھر اُدھر ہوتے جاتے ہیں نئی کلام پاکوں کو بھی جزدان نہیں ، ان کے رکھنے کے لیے ریحل کا انتظام نہیں، ان کے صاف ستھرا رکھنے پر کوئی مامور نہیں ۔ آپ ہی سوچئے کہ کلام اللہ شریف کے ساتھ ہمارا یہ طرز عمل کس قدر افسوسناک ہے۔ اب تو یہاں تک دیکھنے میں آرہا ہے کہ کلام الہی کی آیات شادی رقعوں ، نام رکھائی کے کارڈوں اور دیواری پوسٹروں پر تک چھاپے جا رہے ہیں ، جن کی حفاظت اور احترام کی کوئی صورت ہی نہیں، رقعے پڑھنے کے بعد ادھر اُدھر ڈال دئے جاتے ہیں اور پوسٹرز جھڑ کر اور پھٹ کر ہواؤں کے حوالے ہو جاتے ہیں، کیا یہ معمولی گناہ ہے؟ کیا یہ قرآن عظیم پر ظلم نہیں؟ آئیے ! آج عہد کریں کہ اپنا فریضہ اور کلام الہی کے احترام کا حق سمجھ کر اپنے گھروں اور مسجدوں میں اس منکر کی اصلاح کی آج ہی سے فکر شروع کر دینگے، اور ایک دوسرے کو حکمت سے توجہ دلاتے رہیں گے۔ اللہ پاک ہم سب کو تو فیق عمل نصیب فرمائے ، آمین کتاب کا نام:اشرف الجرائد
Comments