top of page

راہ علم دین کا مسافر مجاہد فی سبیل اللہ ہے

از : حضرت مولانا محمد مصدق القاسمی *




عن انس ؓ قال قال رسول الله ﷺ من خرج في طلب العلم فهو في سبيل الله حتى يرجع - ( رواه الترمذى والداری )

ترجمہ : حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص علم دین کی طلب و تحصیل میں نکلا تو وہ جب تک ( اپنی منزل ) کو واپس نہ آجائے اللہ کی راہ میں ہے۔


تشریح : جو بھی دین و شریعت کا علم حاصل کرنا چاہے وہ علم فرض عین ہو یا فرض کفایہ اپنے گھر یا اپنے وطن یا شہر سے نکلا تو اس کے لیے ایسا ثواب عظیم ہے گویا وہ جہاد فی سبیل اللہ میں ہے یعنی اللہ کی رضا کے لیے اللہ کے راستے میں جان نچھاور کرنے اور دین کی سر بلندی کے لیے دین کے راستے میں لڑنے والے کے برابر ہے، جس طرح ایک مجاہد اشاعت دین کے لئے ہر طرح کی قربانی پیش کرنے گھر بار، اہل و عیال اور دنیا کی ساری لذتوں کو چھوڑ کر راہ خدا میں نکلتا ہے اسی طرح ایک طالب علم بھی اللہ کے دین کو پھیلانے کی غرض سے سیکھنے کے لیے گھر سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نکلتا ہے۔ شیطان کو ذلیل کرنے اور اپنے نفس کو مارنے ہی کے لیے گھر سے نکلتا ہے اور سفر کی تمام تکلیفوں کو جھیلتا ہے۔ لہذا وہ بھی گھر واپس لوٹنے تک مجاہد کا ثواب پاتا رہتا ہے اس حدیث میں ایک بات تو واضح ہے کہ طالب علم گھر لوٹنے تک تو مجاہد کا درجہ حاصل کرتا ہے لیکن جب علم دین ۔ سے فراغت پا کر با قاعدہ علوم سے آراستہ ہو کر گھر واپس ہوتا ہے تو اس سے بھی بڑا درجہ پاتا، کیوں کہ وہ ناقص سے کامل بن گیا، ناقص کی صورت میں یہ مقام ہے تو کامل کی صورت میں اس کا مقام و مرتبہ بلند اتنا ہوتا ہے کہ آپ صلی ایم کی زبان مبارک میں انبیاء کا وارث بن جاتا ہے کیوں کہ اب وہ اس دین کی ترویج واشاعت میں اپنی صلاحیت لگاتا ہے تو انبیاء کی نیابت کا کام انجام دیتا ہے۔ اس لیے طلبہ علم دین کو علوم دینیہ کی تحصیل میں اس جذبہ کے تحت رہنا چاہیے کہ وہ اس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں اور علم کے حصول کا جذبہ اتنا زیادہ ہو کہ کسی بھی مرحلہ پر اس کی طلب کی تکمیل اور اس کی جستجو کی تسکین کم نہ ہوتی ہو، پھر یہاں تک کہ علم کی طلب و جستجو میں وہ اپنا عرصہ حیات پورا کر کے اس دنیا سے چلا جائے پھر بھی اس کے علم کی پیاس نہ بجھے جیسا کہ آپ ﷺ کی ایک حدیث شریف میں اسی طرف اشارہ ہے ۔ ترمذی میں ہے حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مؤمن کا پیٹ خیر کی بات سننے ( یعنی دین کا علم حاصل کرنے ) سے کبھی نہیں بھرتا ۔ یہاں تک کہ جنت ہی اس کی منتہا ہوتی ہے۔


یہ حدیث طالبان علم دین کے لیے ایک عظیم بشارت رکھتی ہے کہ وہ انشاء اللہ اس دنیا سے با ایمان رخصت ہوں گے اور حسن خاتمہ سے نوازے جائیں گے۔ اسی لیے بہت سے اہل اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ساری زندگی طالب علم بنے رہے اور علم کے بہت سے میدانوں میں کمال حاصل کر لینے کے باوجود وہ عمر کے آخری حصہ تک تحصیل علم میں مشغول رہے تا کہ اس درجہ کو حاصل کر لیں جس کی اس حدیث میں بشارت ہے در حقیقت علم کا سمندر اتنا وسیع ہے کہ طلب علم کا مفہوم علمی مشغولیتوں کی ہرصورت پر پورا اترتا ہے ۔خواہ وہ تعلیم و تدریس اور تصنیف و تالیف ہی کی صورت میں کیوں نہ ہو اس اعتبار سے علمی مشغولیت کی کوئی صورت بھی ہو اس پر اس حدیث میں بشارت کا حقیقتاً اطلاق کیا جاسکتا ہے ۔ اس طرح کی احادیث مبارکہ فضیلت علم دین کے بارے میں کتب احادیث میں متعدد ہیں۔


 کاش ! علم دین کے حصول میں نکلنے والے طلبہ کرام ہمیشہ اس کو مستحضر رکھے ہوتے تو علم میں وہ کیفیت پیدا ہو سکتی جو پچھلے زمانوں میں اسلاف کے اندر موجود تھی آج حصول علم دین کے اندر ایسا جذ بہ انتہائی ماند پڑ گیا ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طالبان علوم دینیہ نے تاجدار مدینہ احمد عربی محمد مصطفی ﷺ کے ارشادات مبارکہ کو پس پشت ڈال دیا جو بشارتوں سے بھری ہوئی ہیں ۔ انہوں نے سر پرستوں کے دباؤ یا کسی وجہ سے علم دین کا راستہ متعین کر لیا اس کی اہمیت وافادیت کو سمجھتے ہوئے پڑھنے آتے تو از ابتدا تا انتہا اس علم کے حصول میں وہ لگن، جستجو اور فکر ہوتی جو ایک سچے طالب علم میں ہونی چاہیے۔


مدارس دینیہ کا آغاز ہو چکا ہے طلبہ مدارس میں اپنے شہر اور گھر کو چھوڑ کر مجاہدے سے مدارس میں پہونچ چکے ہیں تو وہ تمام ان احادیث کا مطالعہ ایک دفعہ کر لیں جو آپ مسلی یا اسلام نے علم دین کی فضیلت کے بارے میں ارشاد فرمائی تا کہ نیت صادق اور طلب صادق کے ساتھ اس اہم راستے میں لگے رہنے کی توفیق عطا ہو۔


اللهم وفقنا لما تحب وترضى

مضمون: اشرف جرائد


Comments


bottom of page